وہیں طاقت کے توازن میں بھی بدلاؤ آرہا ہے۔ چونکہ بین الاقوامی امور نام ہی “تخیراتی سیاست” کا ہے اس لئے بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ کسی بھی ملک کا قومی مفاد اس کے معاشی حالات اور اقتصادی ضروریات سے ہرگز الگ تھلگ نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہرملک اپنی خود مختاری کو مقدم رکھ کر داخلی ترجیحات اور خارجی ضروریات کے مطابق بدلتے عالمی منظرنامے کے تناظر میں فیصلہ لینے کا مجاز ہوتا ہے۔
ایسے ہی صورتحال اس وقت عالمی سیاسی منظرنامے میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جہاں کچھ ملکوں کی ضروریات اور ترجیحات متعدد عوامل کے پیش نظر تغیر کا شکار ہیں اور اب انہیں ایک نئی حکمت عملی درکار ہے۔ ایک
ایسی حکمت عملی جو ان ممالک کے ملکی مفاد سے متصل ان کی قومی سلامتی کی بھی ضامن ہو۔
موجودہ عالمی طاقت امریکہ کی بین الاقوامی اموربالخصوص عالمی سیاست پر گرفت اب بتدریج کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کمزوری کی متعدد وجوہات ہیں جن میں امریکہ کا غیر ضروری جارحانہ پالیسی پرانحصار سرفہرست ہے۔ علاوہ ازیں، امریکہ کی اکانومی بھی اب بے جان ہوتی نظرآرہی ہے۔ جبکہ امریکہ کے برعکس عوامی جمہوریہ چین ایک اقتصادی اورعسکری قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ اورجس کا”ون بیلٹ ون روڈ” منصوبہ مستقبل میں چین کو پوری دنیا سے منسلک کرے گا۔ اس طرح چین مغربی ایشیاء، وسط ایشیاء، اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ عرب دنیا اور پورے یورپ تک اپنے لئے نہ صرف نئی تجارتی منڈیاں تلاش کر لے گا بلکہ ان تمام خطوں کی علاقائی سیاست میں بھی چین آنے والے وقتوں میں ایک نہایت موئثراور فعال کردار بن کر سامنے آئے گا۔ کیونکہ سیاست اورمعیشت کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ مزید براں، چینی ثقافت بھی اس منصوبے کے
تحت پورے آب و تاب کے ساتھ دنیا میں رواج پانے کے لئے پر تول رہی ہے۔
بلاشبہ امریکہ اتنی آسانی سے تو چین کو اپنی جگہ نہیں لینے دے گا اس لئے وہ اس خطے میں بھارت کواپنا بظاہراسٹریٹجک پارٹنربناکرچین کےراستے کا پھتر بنا رہا ہے۔ اس لئے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتےآئےدن بھارت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جوچین کے ہرمعاملے میں بے فضول روڑے اٹکاتا ہے۔ جس کی حالیہ مثال ڈوکلام کی سرحد پر بھارتی فوج کا بلا جواز جارحانہ رویہ ہے کیونکہ وہ جگہ ہندوستان کا حصہ نہیں بلکہ چین اور بھوٹان کا حصہ ہے۔ بھارت نے مسلسل تین ماہ تک تو امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی فوجیں ڈوکلام سرحد پر رکھیں مگر اب اچانک یک طرفہ طور پر انہیں واپس بلوا لیا۔ کیونکہ بھارتی وزیراعظم (پانچ ممالک کی تنظیم) برکس کانفرنس میں شرکت کے لئے چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ جس کے لئے ماحول کا خوشگوارہونا نہایت ضروری امرتھا۔ اوراس خوشگوارماحول کے درپردہ جوعناصرکارفرما سمجھے جارہے ہیں ان میں بھارت میں چین کی سرمایہ کاری کے قوی امکانات اور”میک ان انڈیا” کے تحت بھارت کی چینی منڈیوں تک رسائی سرفہرست ہیں۔ بلاشبہ اس سب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بھارت کے چین سے سنجیدہ نوعیت کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں اور جن کو بھارت سے وابستہ امریکی توقعات کے باعث مستقبل قریب میں قوی زک پہنچنے کا خدشہ ہے۔
لہٰذا آئیندہ دنوں میں بھارت خاصی مشکلات کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چونکہ بھارت امریکہ ناپاک گٹھ جوڑ اب افغانستان میں بھی ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے بعد کھل کر سامنے آچکا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کوئی اکنامک پاور نہیں جو جنگی بدحالی کے شکارملک افغانستان میں تعمیر نو کے کاموں میں سرگرم ہو۔ بھارت کے اپنے لاکھوں کروڑوں شہری بھارتی حکومت کی توجہ سے تاحال محروم ہیں۔ وہاں پراقلیتوں کی زبوں حالی سے تواقوام عالم پہلے سے ہی واقف ہیں مگر”گائے کے تحفظ” کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں ہونے والے غیر انسانی اور ناروا سلوک نے بھارتی سیکولرازم کے نام نہاد نعروں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
ایسا ملک جس کا اپنا گھر ہی بحالی اور معاشرہ تعمیر نو کا سالہا سال سے منتظر ہے وہ بھلا افغانستان کی تعمیر و ترقی میں خاک کردار ادا کرے گا؟ بھارت کے برعکس پاکستان نے 1970 کی دہائی سے لیکر اب تک چار ملین سے اوپر افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کیا۔ جس کا کہیں پر بھی تذکرہ نہیں ہوتا نہ توافغانستان میں اور نہ عالمی فورمز پر۔ کیونکہ پاکستان عالمی فورمز پر بھارت کے مقابلے میں سفارتی تکنیکوں کے
موئثر استعمال مثلاً لابنگ وغیرہ میں بہت پیچھے ہے۔
علاوہ ازیں یہ سوالات بھی غورطلب ہیں کہ ہمارے بے شمار فوجیوں اور اے پی ایس سکول کے معصوم بچوں کا سفاک قاتل ملا فضل اللہ افغانستان میں دندناتا پھرتا ہے۔ ہم امریکہ سے کیوں نہیں یہ مطالبہ کرتے کہ اس کی افواج ہمارے دشمن کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے؟ ہمارے سکولوں اور جامعات پر افغانستان سے بیٹھ کر دہشت گرد حملے کنڑول اور گائیڈ کیے جاتے ہیں ہم وہ تمام ترفون انٹر سیپٹس عالمی میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے؟ افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑرہا ہے کہ پاڑٹیوں اوراپنے اپنے لیڈران کے خاندانی مفادات کے تحفظ کے لئے تو ہمیں دھواں دار قسم کی پریس کانفرنسیں دیکھنے کو ملتیں ہیں مگر جب ملک کےقومی مفاد کی بات آتی ہے تو سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے ہیں۔ آخر کوئی تو ہو بتانے والا کہ نام نہاد بھاری مینڈیٹ رکھنے والے ہمارےلیڈران آخر کب چپ کا روزہ توڑیں گے؟ آخر کب پاکستان کے لئے اپنا وطیرہ بدلیں گے؟ جو جوش و ولولہ یہ لوگ اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے لئے دیکھاتے ہیں وہ ہمیں شاید ہی
کبھی پاکستان کے قومی وقار کے تحفظ کے لئے دیکھنے کو ملا ہو۔
واضح رہے کہ پاکستانی فوج نے جتنی قربانیاں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں دی ہیں اتنی اس نے بھارت کے ساتھ لڑی جانے والی روائیتی جنگوں میں بھی کبھی نہیں دیں۔ پاکستانی فوج صرف اور صرف پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے اور وہ یہ فریضہ احسن طریقے سے روز اول سے سرانجام دے رہی ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت ہمارے ملک میں تیزی سے رواج پانے والا امن ہے۔ پاکستانی قوم بلاشبہ انسداد دہشت گردی کے ضمن میں اپنی افواج کی اعلٰی کارکردگی سے بالکل مطمعن نظر آتی ہے۔ اگرافغانستان میں تاحال امن قائم نہیں ہو سکا تو اس کا ذمہ امریکی افواج کے کندھوں پر عائد کیا جانا چاہیئے نہ کہ پاکستان پر۔ کیونکہ پاکستانی فوج تو وہاں نہیں لڑ رہی۔ پاکستانی فوج اپنے قبائلی علاقوں کو تقریباً کلئیر کر چکی ہے اور آج ہمارے قبائلی علاقوں میں ہر جگہ ہر پہاڑ ہر چوٹی پر الحمد اللہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے۔
المختصر، بیشک پاکستان نے جنگی میدان میں تو دہشت گرد قوتوں کو ناقابل فراموش شکست دے دی ہے مگر اب اسے بین الاقوامی فورمز پر سفارتی محاز بھی جلد سے جلد سنبھال لینا چاہیئے اورعالمی طاقتوں کو انسداد دہشت گردی کے ضمن میں اپنی فتوحات سے بذریعہ لابنگ آگاہ کرنا چاہیئے اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔