وہ باتیں جو پاکستانیوں کو بھی معلوم نہیں
پاکستان کے ضلع چنیوٹ میں دریائے چناب کے کنارے وہ چھوٹا سا شہر آباد ہے جو نا صرف احمدی جماعت کا عالمی مرکز ہے بلکہ دنیا بھر کے احمدیوں کے لئے اس کرہ ارض پر محبوب ترین مقام کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ یہ شہر ربوہ ہے، جس کا نام بعد ازاں چناب نگر رکھ دیا گیا، جہاں 97فیصد آبادی احمدیوں پر مشتمل ہے۔
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں اس شہر کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلوﺅں سے پردہ اٹھایا گیا ہے جن سے عام پاکستانی بڑی حد تک ناواقف ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس شہر کی ایک نمایاں بات تناﺅ کی وہ کیفیت ہے جو ہمہ وقت یہاں طاری رہتی ہے کیونکہ یہاں بسنے والوں کو اپنی سکیورٹی سے متعلق خدشات ہر وقت لاحق رہتے ہیں۔ اس شہر کے باسیوں میں سے بیشتر لوگ ناموافق حالات کے سبب پاکستان کے دیگر علاقوں سے یہاں منتقل ہوئے ہیں اور متعدد ایسے ہیں جو اپنی حفاظت کے پیش نظر ملک سے باہر جانے کے منتظر ہیں۔
احمدی جماعت نے جب اپنا ہیڈکوارٹر 1948ءمیں بھارت سے پاکستان منتقل کیا تو دریائے چناب کے کنارے ایک بے آباد خطہ خرید کر یہاں نیا شہر بسایا تھا۔ اب اس شہر کی آبادی70ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ربوہ کی تمام سڑکیں پختہ ہیں جن کے کنارے سلیقے سے سنوارے گئے سبزے اور پودوں کی قطاریں نظر آتی ہیں۔ یہاں ایک اولمپک سائز سوئمنگ پول، جدید لائبریری، فری آئی و بلڈ بینک اور امراض قلب کے لئے عالمی معیار کا ہسپتال بھی ہے۔ پاکستان کے دیگر شہروں سے اس شہر کا ایک اور نمایاں فرق تعلیم کی شرح ہے۔ یہاں مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی تعلیم کا رجحان بہت زیادہ ہے اور شرح تعلیم تقریباً 85 فیصد ہے۔
ربوہ شہر کی اکثریت آبادی مالی لحاظ سے خوشحال ہے۔ شہر بہت چھوٹا سا ہے لہٰذا گاڑیوں والے بھی عموماً ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے سائیکل ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہر طرف احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے پوسٹر نظر آتے ہیں اور شہر کا عمومی ماحول پاکستان کے کسی بھی اور شہر سے مختلف نظر آتا ہے۔
مرکزی اقصیٰ روڈ تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے جہاں بڑی تعداد میں مرد و خواتین سبزیوں اور پھلوں کی دکانوں پر بھاﺅ تاﺅ کرتے اور انواع و اقسام کی دیگر اشیاءکی خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دوسری دکان کے نام میں لفظ ’احمدی‘ نظر آتا ہے، مثلاً احمدی ٹیلرز، احمدی جنرل سٹور، احمدی ہارڈویئر وغیرہ۔ شہر میں طلباءو طالبات کی تعداد کی نسبت سکولوں کی تعداد کم ہے لہٰذا یہاں سکول دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔
اس شہر میں بسنے والوں کا تعلق کئی طرح کے مختلف لسانی و نسلی گروہوں سے ہے کیونکہ ان کی اکثریت دوسرے علاقوں سے آ کر یہاں آباد ہوئی ہے۔اور جب یہاں احمدیت کا سالانہ اجتماع ہوتا تھا تو صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کو یہاں دیکھا جا سکتا تھا لیکن 1984 میں اس اجتماع پر پابندی لگا دی گئی ۔ مختصر یہ کہ چناب کے کنارے بسا یہ چھوٹا سا شہر احمدی جماعت کے ماضی سے لے کر حال اور عقائد و نظریات سے لے کر تہذیب و ثقافت تک کی پوری کہانی بیان کرتا نظر آتا ہے۔