اس موضوع پر ہزاروں تحریریں لکھی گئی ہونگی اور کڑوڑوں دفعہ پڑھی گئی ہونگی ۔لیکن اس موضوع کا انتخاب میرے نزدیک ہماری قوم کو ایک بھلا سبق یار دلانا ہے ۔آج ہماری نوجوان نسل قائد اعظم اور قائد اعظم کے پاکستان کے بارے میں بس چوداں نکات تک محدود ہے۔نوجوان نسل ہی نہیں بلکہ ہم سب قائد اعظم کے نظریے اور تصورات سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔ کیوں کہ قائد اعظم کے نظریات ،تصورات ،خواہشات ،اصول اور پاکستان کے لئے انکے وژن کو ہر دور کی حکومت نے نظر انداز کیا اور اسکول،کالج اور یونیورسٹی کے سطح پر نصاب کا حصہ بنانے سے گریز کیا ۔چند نامعلوم عناصر نے قائد اعظم کے نظریے اور تصورات کو قوم کے سامنے توڑ مڑوڑ کر پیش کیا کہ آزادی کے 70 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم اس الجھن کا شکار ہیں کہ آخر قائد اعظم کا نظریہ اور تصورات درحقیقت تھے کیا ۔نامعلوم عناصر نے قائداعظم کے نظریات کو کبھی “سیکولرازم” اور کبھی “تھیوکریسی” کا نام دیا اور وقت فوقتاً سیکولرازم اور تھیوکریسی کی تعریف کو وقت اور مفاد کی خاطر تبدیل کرتے رہے اور قوم کو گمراہ ۔اس سے پہلے کہ بحث جنگ بن جائے، چند بنیادی باتیں جن کا علم ہونا بہت ضروری ہےوہ یہ کہ سیکولرازم اور تھیوکریسی آخر ہے کیا ؟
سیکولرازم کی تعریف برطانوی مصنف “جارج جیکب یولیوک” نےکچھ یوں کی ہے کہ “سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یہ بے دخلی ہے۔اس نظریہ کا مقصد مذہب اور مذہبی تصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے حزف کر دینا ہے ۔سیکولرازم جدید دور اور روایتی مذہبی اقتدار سے دور جانے کی طرف ایک تحریک ہے۔سیکولرازم کو اردو میں عموماً لادینیت سے تعبير کیا جاتا ہے لیکن سیکولرازم کے حامیوں کے نزدیک یہ لادینیت سے متراف نہیں ،بلکہ اس کا مطلب مذہب اور سیاست کو الگ الگ کر دینا ہے۔ سیکولرازم کی اصطلاح دراصل چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کیلئے استعمال کی گئی تھی گویا سیکولرازم دراصل مذہب اور سیاست کے مابین تفریق کا نام ہے۔”
تھیوکریسی کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ تھیوکریسی کا مطلب “مذہبی پیشواؤں کی حاکمیت” کہلاتا ہے۔انہی وجوہات کی بنا پر چرچ اور بادشاہوں کے مابین اختلافات تاریخ کے صفحوں پر جابجا بکھرے نظر آتے ہیں ۔چونکہ حکمران پوپ کے مذہبی احکامات کا پابند ہوتا تھا جبکہ پوپ پر کوئی روک ٹوک نہ تھی اور پوپ کے انتخاب میں بھی نسلی اور قومی تعصب غالب تھا اور اسی وجہ سے کئی نا اہل لوگ بھی اس عہدے پر فائز ہوئے ۔اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چرچ نے اختیارات کا نہایت غلط استعمال کیا ۔ان حالات کی وجہ سے مذہب اور عوام میں بغاوت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں حکومت اور مذہب کے کردار کو مٹا دیا گیا ۔تھیوکریسی کہ کچھ عرصہ مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کو پاکستان کا حکمران بنادیا جائے اور ہر قانون مولانا صاحب کے فتویٰ کا محتاج ہو ایسے تھیوکریسی کہیں گے ۔
برصغیر تاریخ میں کبھی بھی ایک متحد ملک نہیں رہا۔ہندو اور مسلم معاشرے برصغیر میں ایک ہزار سال تک ایک دوسرے کے ساتھ رواں دواں رہے لیکن ہندو ،ہندو رہے اور مسلمان ،مسلمان رہے۔دونوں کے طرزِ زندگی اور تصورات زندگی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اسی لئے تاریخ میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی قیادت کا ثمر تھا ۔کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے سالوں کی محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں دنیا کی سب بڑی اسلامی مملکت قائم کر نے کا معجزہ کر دکھایا ۔لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیامِ پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک عظیم الشان عمل وجود میں آیا۔جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔صاف ظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر دنیا کا کوئی حقیر مقصد نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ سب ایک عظیم نظریاتی،روحانی اور تہذیبی مقصد کے تہت کیا گیا تھا۔آج جب قوم اور ملک ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے تو ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھااور ان کے تصورات کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی اہميت کیا ہونی چاہیے تھی؟
ان تمام سوالات کا جواب قائدکی نصائح میں مدغم ہے۔
2نومبر 1941 کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب میں قائداعظم نے کہا کہ “آپ ہندوؤں اور سکھوں کو بتادیں کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ پاکستان کوئی مذہبی ریاست ہوگی اور اس میں غیر مسلموں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔”
11اپریل 1946 کو مسلم لیگ کنونشن دہلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نےکہا کہ”ہم کس چیز کےلئے لڑ رہے ہیں ۔ہمارا مقصد تھیوکریسی نہیں ہے اور نہ ہی ہم تھیوکریٹک اسٹیٹ چاہیے ہیں ۔مزہب ہمیں عزیز ہے لیکن اور چیزیں بھی ہیں جو زندگی کیلئے بے حد ضروری ہیں ۔مثلاً ہماری معاشرتی زندگی ،ہماری معاشی زندگی اور بغیر سیاسی اقتدار کے آپ اپنے عقیدے یا معاشی زندگی کی حفاظت کیسے کرسکیں گے”
1946 میں رائٹرز کے نمائندے ڈول کیمبل کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کا کہنا تھا کہ” نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جس میں اختیارات کا سرچشمہ عوام ہوگی۔نئی ریاست کے ہر شہری مذہب ،زات یا عقیدے کی بنا کسی امتیاز کے یکساں حقوق ہونگے ۔”
11اگست 1947 کو قائد اعظم نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
“آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے،یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے،آپ جانتے ہیں کہ تاریخ میں عقائد اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز روا رکھا جاتا رہاہے ۔برطانیہ میں صورتحال بہت ابتر رہی ہے ،جہاں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایک دوسرے پر بہت مظالم ڈھائے ہیں ۔حتیٰ کہ آج بھی کچھ ریاستیں موجود ہیں جہاں زات پات کا امتیاز موجود ہے۔ لیکن میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم اپنے تاریک دور سے آغاز نہیں کررہے ہیں ۔بلکہ ہم تو ایک ایسے عہد میں اپنے ملک کی بنیاد اکھ رہے ہیں جس میں ذات پات اور برادریوں ،مذاہب اور عقائد کے درمیان کوئی فرق ،کوئی امتیاز اور کوئی دوری نہیں ہے۔ہم ایک ایسے یقین اور بنیادی اصول سے اپنی جدوجہد کا آغاز کررہے ہیں جس کے مطابق پاکستانی شہری ہونے کی حثیت سے ہم سب برابر ہیں ۔ہم سب ایک قوم ہیں ۔میرے خیال میں ہمیں اب اس رہنما اصول کو اپنا لینا چاہیے کہ ہم میں سے کوئی مسلمان نہیں ،اور نہ کوئی ہندو ہے۔یقین جانیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان تمام تفریقات کا خاتمہ ہو جائیگا اکثریت اوراقلیت کی تقسیم بے معنی ہو جائیگی ۔ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا فرق ختم ہوجائیگا ۔کیونکہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی آپ کے درمیان پٹھان ،پنجابی ،شعیہ اور سندھی کی تقسیم موجود ہے۔اور اس ہی طرف ہندو بھی برہمن ،کشتری ،بنگالی ،مدراسی وغیرہ کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔یقین کیجئے کہ ان سب کے درمیان پایا جانے والا فرق مٹ جائے گا ۔میرے خیال میں عقیدے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے ۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔آپ آزاد ہیں ،آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں ۔آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے ۔آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے ۔آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو انکے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہيں کہ رہا ہوں ۔کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیے ۔”
یکم فروری 1948 کو امریکی عوام سے ریڈیو خطاب میں قائد اعظم نے کہا کہ “پاکستان ایک ایسی مذہبی ریاست نہیں بنے گا جس میں مذہب کے نام پر حکومت کرنے کا اختیار ہوگا۔ہماری ملک میں بہت سے غیر مسلم شہری موجود ہیں مثلاً ہندو ،مسیحی اور پارسی وغیرہ لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔انہیں وہی حقوق اور مراعات حاصل ہونگی جو دیگر شہریوں کو دئیے جائیں گے اور انہیں پاکستان کے امور مملکت اپنا کردار ادا کرنے کا کا پورا موقع ملئے گا۔”
19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کی عوام کے نام ایک نشریاتی تقریر میں قائد اعظم نے ایک واضح اعلان کیا کہ”پاکستان کی ریاست میں تھیوکریسی کی طرزِ حکومت کی کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔”
قائد اعظم کے تصورات کا ایک لازمی جزو سیکولرازم تھا۔قائد اعظم کا مقصد واضح طورپر مذہب اور سیاست میں تفریق تھا۔نظریہ پاکستان کا مقصد ایک ہندوستان دشمن ریاست بنانا ہرگز نہیں تھا ،بلکہ ایک ایسی ریاست کا قیام تھا جہاں برصغیر کے مسلمان سیاسی اور اقتصادی آزادی کا مزہ لے سکیں اور پاکستان کا ہر شہری اپنے دین پر بلاخوف و خطر عمل کر سکے۔قائد اعظم کی زندگی کا مقصد برصغير کے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک باوقار شہری بنانا بھی تھا ،اکثریت اور اقلیت کا فرق مٹانا چاہتے تھے ۔پاکستان کو امریکہ اور برطانیہ جیسی ترقی پسند ریاست بنانا قائد اعظم کا مقصد تھا۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد ہم راستہ سےبھٹک گئےاور قائد اعظم کے نظریات مسخ ہوگئے۔ لیکن وقت کا تقاضہ ہےکہ پاکستان کو فلاحی ریاست میں ڈھالہ جائےاور آغاز وہیں سے ہو جہاں اس کا سر کچلنے کی سازش کی گئی۔ ہمیں قائداعظم کے نظریات اور تصورات کی روشنی میں اس ملک کی عوام کی بلاتفریق مذہب ،نسل جنس حق شہریت تسلیم کرنی ہوگئی ۔قائداعظم کے ایک ایک لفظ پر عمل کے ذریعے ہی پاکستان کی تکمیل ممکن ہے ۔جب تک آمریت ،جبر،طبقاتی تقسیم ،فرقہ واریت ،تنگ نظری اور ظلم کے دروازے بندنہ ہونگے تب تک پاکستان معاشرہ اسلامی ،پرامن ،ترقی یافتہ ،خوشحال اور آسودگی کے راستہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ۔ہم سب کو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی تعمیر وترقی اور استحکام کیلئے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنا ہوگا یہی راستہ ہے قائداعظم کے نظریے اور تصورات کو عملی جامہ پہنانے کا،بات اقلیتوں کی نہیں ہے، بات ہے مساوی حقوق کی ،بات ہے مساوی قانون کی، جو قانون ایک عام شہری کے لئے بنایا گیا ،کیا اس پر عمل کرنا صدر پاکستان کی توہین ہے؟ ہم سب آج سندھی،بلوچی،پنجابی اور پختون کا پاکستان علیحدہ کرنے کی کوشش میں ہیں جبکہ ضرورت انسانیت اور پاکستان کا حق ادا کرنے کی ہے۔کوئی بھی قوم،کامیاب قوم نہیں بن سکتی جب تک وہ کمزور، لا چار،بے بس اور نادارلوگوں کی قدرنہیں کرتی۔
خدارااس ملک کو نامعلوم عناصر سے آزاد کروانے کی تگ ودو کریں،اپنے آپ کو، اپنی نسلوں کو تباہی کا رستہ دیکھانے کی بجائے ملک کی قدر اوراس کی اہمیت کو پہچاننے کی طرف توجہ مرکوز کریں۔پاکستان کو ناکامی کا گھر بنانے سے بہتر ہے اس ملک کو چھوڑ جائیں۔بابائے قوم کا مقصد اس ملک کو قید خانہ بنانا نہیں تھا، آزادی کے باوجود ہم مذہب اور سیاست کے پنجرے میں قید ہیں، وقت۔ا ہمارا ہے، نام اس ملک کو نامعلوم عناصر سے آزاد کروانے کا۔علوم عناصر سے رہائی کا۔