تاریخ سے کھلواڑ

[pukhto]

پاکستان کی ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں تاریخ کے نام پر نئی نسل کومسلسل جھوٹ سے روشنا س کرایا جا رہا ہے اس عمل میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو باقاعدہ طور پر تاریخ دان نہیں۔اگرچہ ہمارے عہد کے تاریخ دانوں نے بھی ہم پر کچھ کم کرم نوازی نہیں کی۔ہمارے ہاں ایک مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھانے کی خاطر ہر طرح کا جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا جا رہا ہے اور اس میں وہ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جو اپنے تئیں اسلام کے سب سے بڑے نام لیوا ہیں۔اسی طبقہ میں اب نام نہاد آزاد ذرائع ابلا غ کے وہ خود ساختہ دانشور بھی ہیں جن کو ایک مخصوص نظریے کے تحت آگے بڑھنے کے تمام تر مواقع بھی فراہم کئے گئے ہیں۔

اسی طرح ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہو گیا ہے جو اس تاریخ پر بلا سوچے سمجھے اورپرکھے بنا ایمان لا چکا ہے جس کو کبھی اس نے محض امتحان پاس کرنے کے لئے یاد کیا تھا۔دیکھا جائے تو تاریخ کے ساتھ اس ظلم میں وہ تاریخ دان بھی شامل ہیں جن کا کام ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ریاست کے مفروضہ مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔بجائے اس کے یہ تاریخ دان ان مفاد پرست عناصر کے آگے کلمہ حق بلند کرتے ان میں سے اکثر اس گھناؤنے کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔لیکن انہیں معلوم نہیں کہ یکطرفہ طور پر اس جھوٹ کو جتنا مرضی پھیلا ئیں ہمیشہ کے لئے سچ کو چھپا نہیں سکتے۔

مجھے ذاتی طور پر آج کے ایک نام نهاد تاریخ دان جناب صفدر محمود صاحب بہت پسند رہے ہیں اگرچہ مجھے ان سے کئی امور پر اختلاف ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جناب صفدر محمود صاحب نے تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔3فروری کو روزنامہ جنگ میں انہوں نے اپنے کالم میں کتاب نگر کے عنوان سے چند کتابوں پر تبصرہ کیا ہے۔اس میں ایک صاحب آصف بھلی کی کتاب ’’میرے قائد کا نظریہ ‘‘ بھی ان کو بہت بھائی ہے اور جناب صفدر محمو دصاحب آصف بھلی صاحب کی کتاب میں پیش کردہ ایک نظریے کو بنا پرکھے قبول کر رہے ہیں ۔آصف بھلی صاحب اپنی کتاب ’’میرے قائد کا نظریہ‘‘میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’’کوئی قادیانی مسلم لیگ کا رکن نہیں بن سکتا‘‘

سبحان اللہ ،کیا کہنے،یعنی قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک ایسا راسخ العقیدہ مسلمان بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ جس بات کو اسلامیان پاکستان1974میں طے کر سکے کہ قادیانی آئین و قانون کی اغراض و مقاصد کے لئے مسلمان نہیں ہیں اس کو بقول آصف بھلی کے قائد اعظم نے 40کی دہائی ہی میں طے کر لیا تھا۔جبکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ بات قائد اعظم کی شخصیت سے کسی طرح میل نہیں کھاتی۔سب جانتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی دیانت دار اور کھرے آدمی تھے جس بات کو حق سمجھتے اس کے اظہار سے کوئی خوف انہیں باز نہیں رکھ سکتا تھا۔ہمیں معلوم نہیں کہ اپنے اس دعوے کی تائید میں آصف بھلی نے کوئی مستند تاریخی حوالہ بھی پیش کیا ہے یا نہیں ۔یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ اس مضمون کی اشاعت سے میرا یہ مقصد نہیں کہ احمدیوں کو مسلمان ثابت کروں یا غیر مسلم ۔میرے نزدیک یہ سوال قطعی طور پر غیر ضروری ہے ۔میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے محبوب قائد اعظم کا اس بارہ میں کیا نقطہ نظر تھا نیز یہ کہ آصف بھلی صاحب جیسے لوگ جو تاریخ سے مذاق کر رہے ہیں اور ڈاکٹر صفدر محمود صاحب جیسے دانشور اس بات کو کتنی آسانی سے ہضم کر رہے ہیں ،ان لوگوں کی علمی گہرائی کیا ہے اور ان کی باتیں کتنی مستند ہیں۔

آئیے ہم تاریخ سے رجوع کرتے ہیں۔یاد رہے کہ بر صغیر میں انڈین نیشنل کانگر س کی پروردہ جماعت مجلس احرار اسلام سیاسی طور پر مسلم لیگ کے اور مذہبی طور پر جماعت احمدیہ کی شدید مخالف تھی۔’’اقبال کے آخری دو سال ‘‘ جس کے مصنف ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ہیں وہ اپنی کتاب کے صفحہ 325پر لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے کہنے پر احرار سے بھی رابطہ کیاتھا انہوں نے اشتراک عمل پر آمادگی بھی ظاہر کر دی تھی بلکہ باقاعدہ اعلان کر دیا تھا پھر انہوں نے ایک عجیب و غریب تجویز پیش کرد ی کہ مسلم لیگ کے امیدواروں کے حلف نامہ میں یہ شق بڑھائی جائے کہ کامیاب ممبراسمبلی میں جا کر قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ اقلیت قرار دئے جانے کی انتہائی کوشش کرے گا۔اسی کتاب میں آگے چل کر ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ ’’سچی بات یہ ہے کہ احراری لیڈر مولانا حبیب الرحمن نے یہ نئی شق بڑھا کر ہمیں حیران ہی نہیں پریشان بھی کر دیا تھا یوں بھی مسلم لیگ جیس قومی اور سیاسی جماعت سے یہ توقع رکھنا کہ میرزائیت کے بارہ میں اپنے عقیدہ کا اعلان کرے لایعنی بات تھی‘‘

یہاں اس حوالے سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اس نازک موقع پر جب مسلمانوں کو اتحاد اور اشتراک عمل کی اشد ضرورت تھی ،احراراپنی سیاست چمکا رہے تھے ۔اس موضوع پر اور بھی حوالے موجود ہیں جن کو اخباری کالم کی تنگ دامنی کے باعث چھوڑا جا رہا ہے۔بات چونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہو رہی ہے تو ان کا فیصلہ پڑھ لیجئے

قائداعظم نے سرینگر میں پریس کانفرنس سے 23مئی 1944کو خطاب کیا جس میں انہوں نے کہا کہ

’’مجھ سے ایک پریشان کن سوال پوچھا گیا ہے کہ کون مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے یہ سوال خاص طور ہر قادیانیوں کے سلسلہ میں پوچھا گیا ہے ۔میرا جواب یہ ہے کہ جہاں تک آ ل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کا تعلق ہے اس میں در ج ہے کہ ہر مسلمان بلا تمیز فرقہ و عقیدہ مسلم لیگ کا ممبر بن سکتا ہے ،بشرطیکہ وہ مسلم لیگ کے عقیدہ ،پالیسی اور پروگرام کو تسلیم کرے ۔ رکنیت کے فارم پر دستخط کرے اور دو آنے چندہ ادا کرے۔میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ فرقہ وارانہ سوالات نہ اٹھائیں بلکہ ایک ہی پلیٹ فارم پر ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اسی میں مسلمانوں کی بھلائی ہے‘‘

اس پریس کانفرنس کی رپورٹ اخبار’’اصلاح ‘‘ سرینگر کشمیر میں 13جون 1944کو شائع ہوئی تھی اور اس حوالے سے روزنامہ انقلاب لاہور نے 3اگست 1944کو اداریہ لکھا تھا جس میں قائد اعظم کے اس فیصلے کی تحسین کی گئی تھی۔

جی اب بتائیے آصف بھلی اور ڈاکٹر صفدر محمود صاحب ،مسلمانوں کے انتہائی دیانت دار اور کھرے لیڈرقائد اعظم کا اس بارے میں کیا موقف تھا ۔خدا کے لئے سستی شہرت کے لئے تاریخ کا کھلواڑ مت کریں ۔جو قومیں تاریخ کا کھلواڑ کرتیں ہیں یہ بتانا ضروری نہیں کہ تاریخ اور زمانہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ۔وطن عزیز آپ کے سامنے ہی ہے ۔

[/pukhto]

Published at: Press SAAPK