‘نادرا’ نے اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ کو بتایا تھا کہ گزشتہ 16 برسوں کے دوران 10205 شہریوں نے قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے میں تبدیلی کراتے ہوئے خود کو مسلمان سے احمدی درج کروایا۔
پاکستان میں احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے شناختی دستاویزات میں مذہب کی تبدیلی کو عدالت کی اجازت سے مشروط کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے انہیں لاحق سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے تاہم اس عقیدے کے ماننے والے خود کو مسلمان سمجھتے ہیں۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں آباد دیگر غیر مسلم برادریوں کی نسبت احمدی عقیدے کے افراد کو زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں شہریوں کے کوائف کے اندراج کے قومی ادارے ‘نادرا’ نے اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ کو بتایا تھا کہ گزشتہ 16 برسوں کے دوران 10205 شہریوں نے قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے میں تبدیلی کراتے ہوئے خود کو مسلمان سے احمدی درج کروایا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ‘نادرا’ کے پاس 167,473 افراد بطور احمدی رجسٹرڈ ہیں جن میں 13,463 بچے بھی شامل ہیں۔
عدالت کی ہدایت پر ‘نادرا’ نے مذہب کے خانے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کو عدالت کی اجازت سے مشروط کر دیا تھا۔
پاکستان میں احمدیہ عقیدے کے ماننے والوں کی جماعت کے مرکزی ترجمان سلیم الدین کہتے ہیں کہ اس عدالتی کارروائی کے دوران ان کے فرقے کا موقف سنا گیا اور نہ ہی ان کے کسی نمائندے کو عدالت نے طلب کیا۔
سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم الدین کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تفصیلات سامنے آنے سے ان کے بقول پہلے سے سنگین سماجی حالات کا شکار احمدیوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
“ہم نے بھی یہ رپورٹ میڈیا میں دیکھی ہے۔۔۔ پہلے ہی جو صورتِ حال چل رہی ہے، ملک میں ہمارے خلاف قوانین بنائے گئے، اشتعال دلایا جاتا ہے روزانہ کی بنیاد پر، ان حالات میں جب آپ کسی کا ڈیٹا بھی ایشو کریں گے تو اس سے بہرحال ان (احمدیوں) کی سالمیت کو خطرہ تو ہوگا۔”
گزشتہ برسوں میں متعدد احمدی بظاہر سماجی رویوں اور امتیازی سلوک سے تنگ آکر پاکستان سے کسی اور ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں احمدی عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
گزشتہ ماہ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ملک کی مسلح افواج، سول سروس اور عدلیہ میں شامل ہونے والے افراد کے لیے ان کے مذہب و عقیدے کے مطابق بیانِ حلفی جمع کرانا لازمی ہو گا۔
عدالت نے کہا تھا کہ آئین کے تحت غیر مسلم شہریوں کو حقوق حاصل ہیں اور ریاست حقوق ان کی پاسداری کو یقینی بنائے۔
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین حلف نامہ جمع کرانے سے متعلق عدالتی حکم پر کہتے ہیں کہ (احمدی) خود کو مسلمان سمجھتے ہیں اور انھیں اس کے لیے کسی سرکاری سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔
“ہم تو مسلمان ہی ہیں۔۔۔ باقی سارے لوگوں کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ انھوں نے مسلمان کے طور پر کہیں خود کو ڈکلیئر کرنا ہے تو کلمہ ان کے لیے کافی نہیں۔ انھیں سرٹیفکیٹ کی ضرورت بھی ہوگی۔۔۔ صرف پاکستان میں ہی ایسا ہے۔”
احمدیوں کو 1974ء میں پاکستان کی ریاست نے غیر مسلم قرار دیا تھا اور ان پر کھلے عام مسلمانوں کی طرح عبادت کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔