پاکستانی عوام ، دھشتگردی اور اس کا سدّ باب
پاکستان سال 2017 میں شامل کیا ہوگیا، دھشتگردی کی ایک نئی لہر نے اس ملک کو اپنی لپیث میں لے لیا اور فروری مہینے کے پانچ دنوں کے اندر 9 کامیاب دھشتگردانہ حملے ہوئے جس میں سو سے زیادہ معصوم لوگوں کی جانیں گئي۔ اس میں نہ صرف دھشتگرد، بلکہ سکیورٹی سروس، حکومت اور پاکستانی شہری بھی کسی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کوتاہی کا مرتب ہوا ہے۔ دشتگردی کو روکنے کے لیے پاکستان نے اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں اور اسی وجہ سے عوام دھشتگردی کے عذاب سے دوچار ہے اور حکومت اور سکیورٹی اداروں کے پاس صرف خالی بیان بازی کرنے کےاور کچھ نہیں بچا، حقیقت کا سامنا کرنے کی ان کے اندر ہمت باقی نہیں رہی۔
پاکستان کم و بیش پچھلے 15 سالوں سے جدید دھشتگردی کا شکار رہا ہے (قدیم دھشتگردی- 1970 تا 2000 تک تھی)، عام آدمی سے لےکر آرمی ، پولیس ، حکومتی اعلی عہدہ دار وں اور سیاستدانوں تک اس خونی کھیل کا شکار رہے ہیں، مگر افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کسی کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ دہشتگردی آخر کیا ہے، دھشتگرد کون ہیں، ان کے عزائم ، عوامل، مقاصد، عناصر، پس منظر،مستقل اور اس کا حل کیا ہے۔ دھشتگردی آخر کس کو کہتے ہیں؟ دھشتگردی کی تعریف کیا ہے؟ یہ ایک بہت پیچیدہ مضمون ہے۔
ملک کی اعلی سکیورٹی ایجنسیوں اور مقامی فورسز کی مدد سے دھشت گردی کو روکنے اور ناکام بنانے کی بھرپور کو شش کی جارہی ہے کہیں حد تک اس کو روکا بھی گیا ہے مگر اس دھشت اور خون سے بھرپور کھیل کو ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکا ہے، اور اس کی اصل وجہ عوام کی دھشتگردی کے بارے میں معلومات کا نہ ہونا ہے، دھشتگردی کے شکار اس عوام کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ دھشتگردی کی تعریف (ڈیفی نیشن) کیا ہے؟
آپ جب تک دھشتگردی کے مطلب سے آگاہ نہیں ہونگے، اس کے لڑنے اور اس کے خلاف حکمت علمی کس طرح طے کرپائے گے! ملک کی اعلی عسکری قیادت بشمول سکیورٹی ایجنسیاں بغیر عوام کی مدد سے دھشتگردی کوکبھی بھی روک نہیں سکیں گی، اور عوام تب تک مدد نہیں کرپائے گی جب تک ان کو یہ تک معلو م نہیں ہوگا کہ دہشتگردی کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ امریکا میں دھشتگردی کا خطرناک واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو وہاں سیکڑوں کی تعداد میں دھشتگردی پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ بن جاتے ہیں، یوکے میں دھشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو یہاں کی انسٹیٹیوٹ دھشتگردی کو اوپر اسٹڈی و ریسرچ کرنا اور عوام کو اس موضوع پر پڑھانا شروع کردیتے ہیں ، اسرائیل میں کئی دہايغوں سے دھشتگردي کے واقعات رونما ہورےہ ہیں اور وہاں اب تک دنیا کے بہتریں انسٹی ٹیوٹ قائم ہوچکے ہیں اور ان اداروں سے فارغ التحصیل لوگ دنیا کے بہتریں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹس میں اپنا کردرا اداکررہے ہیں۔ اور اسی طرح کینیڈا، آسٹریلیا او رپورے یورپ میں اس موضوع پر بھرپور آگاہی شروع کردی جاتی ہے، میڈیا میں دھشتگردی پر خصوصی سیل قائم کیے جاتے ہیں، حکومتی سطح پر اس موضوع پر الگ ڈپارٹمنٹس (محکمے)قائم کیے جاتے ہیں، لوگوں کے لیے بھرپور آگاہی مہم شروع کی جاتی ہے اور ہر طرح سے کوشش کی جاتی ہے کہ عوام کو اس ناسور کے بارے میں شعور ہونا چاہیے اور اس بیماری سے لڑنے کی حکمت عملی کا علم ہونا چاہیے۔
مگر افسوس صد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ملک (پاکستان) جو دنیا میں سب سے زیادہ اس بیماری کا شکار رہا ہے اور ابھی تک اس بیماری سے لڑ رہا ہے وہاں نہ تو کوئی ڈپارٹمنٹ (حقیقی محکمہ)ہے اور اگر ہے بھی تو اس کی کارکردگی صفر ہے، نہ کوئی ریسرچ ڈپارٹمنٹ ہے، نہ کوئی اس پر اسٹڈی اور ریسرچ ہورہی ہے، نہ اس پر کوئی مخصوص لائبریری ہے، اور نہ میڈیا سیل ہے جو اس کے بارے میں آگاہی پیدا کرے، نہ عوام تک دھشتگردی کے بارے میں شعور پیدا کیا گیا ہے او رنہ عوام کو اس بارے میں کوئی معلومات تک ہے کہ آخر یہ بلا کیا ہے اور کیوں نازل ہوئی ہے؟
عوام کو صرف ایک بات بتائی گئی ہے یا عوام صرف ایک بات جانتی ہے یا یوں کہیں کہ وہ صرف ایک بات ہی جاننا چاہتی ہے باقی باتوں سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔
٭ یہ کام انڈین ایجنسی (را) کا ہے۔
٭ یہ دھشتگردی امریکی (سی آئی اے) کروارہی ہے۔
٭ اس دھشتگردی کے پیچھے اسرائیل (موساد ) ہے۔
٭ یہ دھشتگردی نہیں بلکہ جہاد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی نہ کسی دھشتگردی کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی یا مذہبی عمل دخل ضرور ہوتا ہے مگر اپنے کندھوں سے یہ بوجھ دوسروں کےکندھوں پر منتقل کرنے سے یہ بوجھ ختم نہیں ہوگا بلکہ سائیکالاجی طور پر صرف اس کا احساس ختم ہوگا، بوجھ ادھر کا ادھر موجود رہے گا۔
پاکستان کے بہت سارے لوگ دھشتگردی کی مذمت کرتے ہیں مگر اسی قسم کا کوئی واقعہ امریکہ،اسرائیل، یوکے، انڈیا یا یورپ میں وقوع پذیر ہو تو یہ مذمت یا تو خوشی میں تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر خاموشی میں بدل جاتی ہے۔ کچھ لوگ دھشتگردی کو جہاد کا نام دے کر اسلام کو خود اپنے ہاتھوں سے بدنام کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ اسی سیاسی اسلام نے پاکستان میں جہاد کا علم بلند کرکے ہزاروں مسلمانان کا خون بہایا ہے۔
پاکستان میں 2001 سےلےکر 2015 تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں مگر یہاں ایک بھی قابل قبول ادارہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو کم از کم یہ باور کرانے کی کوشش کرے کہ خدارا! یہ جہاد نہیں بلکہ دھشتگردی ہے چاہے یہ دنیا میں کہیں بھی، کسی میں مسلک، کسی بھی ملک یا کسی بھی مذہب کے خلاف کیوں نہ ہو، یہ خالص دھشت گردی ہے اور اس کا اسلام یا کسی بھی آسمانی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سعودی عرب کے شہر مکہ المکرمہ میں ہر سال دہشتگردی کے موضوع پر انٹرنیشنل کانفرس کروائی جاتی ہے او ردنیا کے بہت سے ممالک سے اس ڈپارٹمنٹ کے پنڈت مکہ المکرمہ پہنچتے ہیں اور سر بیٹھ کر غور و فکر کرتے ہیں کہ آخر یہ کیا چيز ہے، اس کے اثرات کیا ہیں او راس کو کس طرح روکنا ہے۔
مگر افسوس، کہ پاکستان میں اس طرح کی ایک بھی کانفرنس کروانے کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی ہے، پاکستان کا نام دنیا میں دھشتگردی فراہم کرنے میں مشہور ہے، دنیا میں اس ملک کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ ملک دھشتگردی کا کارخانہ ہے ، اگر پاکستان سمجھتا ہے کہ یہ سرار غلط اور بھونڈا الزام ہے تو اس کے سد باب کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں، کیا دنیا میں اپنا امیج بہتر بنانے کے لیے کوئی محنت و مشقت کی گئی ہے! اگر کی گئی ہے تو کہیں نظر کیوں نہیں آرہی ہے!
پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو اس ملک کی عوام کے اندر شعور و آگاہی پیدا کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے ہونگے، اس کے بغیر پاکستان یہ جنگ نہیں جیت سکتا، بغیر عوام کے مدد سے جنگ کبھی بھی جیتی نہیں جاسکتی۔
٭ اسکولز، کالیجز، اور یونیورسٹیز سطح پر دھشتگردی کے بارے میں مکمل آگاہی پیدا کی جائے۔
٭ مساجد اور مدارس میں دھشتگردی کے خلاف مکمل تعلیم دی جائے، قرآن و احادیث کے روشنی میں۔
٭ مدارس کو تنظیمی اجارہ داری سے نکال کر حکومتی تحویل میں دے دیا جائے۔
٭ ملک میں انسداد دھشتگردی انسٹی ٹیوٹ قائم کیے جائے اور عوام کو فری کورسز کروائے جائے۔
٭ یونیورسٹیز میں الگ سے انسداد دھشتگردی پر اسٹڈی کروائی جائے اور الگ سے ڈپارٹمینٹ قائم کیے جائے (گریجویشن، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی)۔
٭ یونیورسٹی سطح پر شاگردوں کے لیے مخصوص انسداد دھشتگردي پر مشتمل لائبریریز قائم کی جائیں-
٭ سائیکالاجی آف ٹیررازم- پر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جائے کہ وہ اس عناصرو عوامل کی تحقیق ( ریسرچ) کریں کہ لوگ دھشتگرد ی اور جرائم کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں-
٭ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر انسداد دھشتگردی پر مشمتل سیل قائم کیے جائے، عوام کو شعور دلانے کے لیے-
٭ یونیورسٹی پروفیسرز کو باہر کے ممالک (یو ایس اے او ریوکے) سے انسداد دھشتگردی کے کورسز کروائے جائے –
٭ جن پاکستانی ریسرچرز نے باہر سے اس موضوع پر تعلیم حاصل کی ہوئی ہے ان کو یکجا کرکے ایک پلیٹ فارم بناجائے کہ وہ انسداد دھشتگردی پر مشتمل تعلیمی اداروں کی نگرانی کریں-
٭ ہر سال قومی (نیشنل) اور اس کے بعد ( بین الاقوامی) (انٹرنیشنل) انسداد دھشتگردی ( کاؤنٹر ٹیرراز ) کانفرنس کروائی جائیں-
٭ یہ سب ادارے ماہانہ بنیاد پر انسداد دھشتگردی پر مشتمل ڈیپارٹمنٹ (محکمہ) کو اپنی رپورٹ پیش کریں ۔
٭ اس محکمہ کا سربراہ نہ تو سیاستدان ہو نہ وہ فوجی افسر ہو بلکہ اس کا سربراہ سولین اعلی تعلیمی ریسرچر (کم از کم پی ایچ ڈی ان کاؤنٹر ٹیررازم) تک کا ہو۔
٭ اس محمکہ کی ایک اعلی کونسل قائم کی جائے جس میں اعلی تعلیم یافتہ ( انسداد دھشتگردی پر مشتمل) حکومتی و عسکری لوگوں پر مشمتل ہو۔
ان تدابیر و اقدامات کے بغیر اس جنگ کو ہم لوگ نہیں جیت سکتے اور ہمارے پاس صرف دوسروں پر الزامات لگانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچے گا۔ عوام ہی ملک کی اصل طاقت ہے، عوام کو باشعور کریں، وہ خود اپنی طاقت سے اس ناسور کو ختم کردے گی چاہے اس کے پیچھے دنیا کا کوئی بھی طاقتور ملک یا ایجنسی ہی کیوں نہ ہو۔