اسلام آباد (ویب ڈیسک )2016میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے وزیر اعظم نوازشریف کی جیپ ڈرائیو کی تو اس پرکافی لے دے ہوئی تھی اس کے کئی فسانے گھڑے گئے تھے ۔اسکو وزیر اعظم کی چاپلوسی بھی قرار دیا گیا کہ یوں راحیل شریف انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلا کر بعد ازریٹائرمنٹ مفادات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اسکو سیاست کی رنگ بازی بھی کہا گیا جس نے آخر اپنا اثر بھی دکھایا ۔پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا ہی انوکھا واقعہ اور ملتا ہے جب پاکستان کے ایک سابقہ وزیر اعظم نے سفیر امریکہ کی حیثیت میں گورنر جنرل پاکستان کی گاڑی کے آگے پائلٹ بن کر نہ صرف موٹر سائیکل چلائی بلکہ بعد ازاں ریل گاڑی کا انجن ڈرائیور بن کر پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا ۔
پچاس کی دہائی میں جب امریکہ نے پاکستان سے دوستانہ مراسم کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کو ریل گاڑیوں کے انجن تحفے میں دئیے تو انجن وصول کرنے کی رسم میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کا استقبال اس وقت کے پاکستانی سفیر محمد علی بوگرا نے انوکھے انداز میں کیا تھا۔
محمد علی بوگرہ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم تھے جنہیں (1953/55) اپنے دور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔وہ اپنی عادات میں نرالے تھے۔گورنرجنرل پاکستان غلام محمد نے جب انہیں وزیرِ اعظم پاکستان نامزد کیا تو وہ اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر تھے۔ محمد علی بوگرا غلام محمدکو اپنا محسن سمجھتے تھے اور ان سے بے پناہ عقیدت میں وہ دوسروں کو حیران بھی کردیتے اورپچھاڑ بھی دیتے تھے ۔ محقق نعیم احمد نے اپنی تالیف ”پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم“ میں محمد علی بوگرہ کاایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جو انکی ذہن کی عکاسی کرتا اورموقع پرست لوگوں کے ایوان اقتدار تک پہنچنے کے طریقوں پر روشنی بھی ڈالتا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ۔۔۔۔۔ ”امریکا نے ایک دفعہ پاکستان کو دوستی کے تحت ریلوے کے چند انجن دیے۔ ان انجنوں کے وصول کرنے کی رسم ادا کرنی تھی۔ دراصل گورنر جنرل کو یہ انجن وصول کرنے تھے۔ لہٰذا گورنر جنرل صاحب باقاعدہ اپنی گاڑی میں اس مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن بوگرا صاحب ایک فوجی کی موٹر سائیکل کو خود چلانے لگے اور گورنر جنرل کی گاڑی کے آگے آگے پائلٹ کا کردار ادا کیا۔ جب ریلوے اسٹیشن جہاں پر انجن کھڑے تھے، وہاں پہنچے تو انجن کے اندر پہنچ گئے۔ انجن کے ڈرائیور کی ٹوپی لے کر اپنے سر پر پہن لی اور انجن چلانا شروع کر دیا۔“