عنوان تو قابل اجمیری کے ایک شعر سے لیا ہے جو ذوقی سی بات ہے لیکن اس تلازمہ خیال سے کچھ معروضی حقائق جڑے ہوئے ہیں اور ان پر غور کے لئے دعوت فکر ہے پاکستان اور مسلم ورلڈ کے اہل فکر کو۔ پہلے پورا شعر عرض کر دوں کہ اسی سے کافی مفہوم واضح ہو جائے گا۔
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مزاج جنوں پہ لیکن۔
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے؟
دستور پاکستان میں احمدیوں سے متعلقہ آئینی ترمیم کی غیر آئینی نا انصافی کی نوعیت کچھ اسی طرح کی ہی ہے اور وہ ذہن کو ایسے ہی سوالوں سے پریشان کرتی ہے۔جو تلوار صرف احمدیوں پر چلنی تھی اس کے وار اب شیعوں پر بھی پڑ رہے ہیں اور ہزارہ کیمیونٹی پر بھی۔ نام بدل بدل کر وہ چڑیل ہمارے بچے کھاتی جا رہی ہے اور ہم سمجھے بیٹھے ہیں کہ کوئی بات نہیں۔۔۔وہ تو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا……
سوال تو یہ ہے کہ کیوں ؟؟؟
حق کس نے دیا تھا ایک سیاسی اور جمہوری فورم کو کسی کے بھی عقیدے کا فیصلہ کرنے کا؟
الہام اور وحی تو ہوتی نہیں۔۔۔
تو پھر اس ظلم کی سند کیا ہے؟
کیا پارلیمنٹ اور جمہوریت سند ہیں؟
تو کل کو اگر انڈیا کی پارلیمنٹ ایک متفقہ بل کے ذریعے ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو غیر مسلم قرار دے اور پھر ان پر مظالم توڑے اور باقی دنیا سوال اٹھائے تو اسے انڈیا کا داخلی ایشو قرار دے کر چپ کروا دے۔۔۔۔
تو اس ہٹ دھرمی پر آپ مسلمانوں کا یا یوں کہئے کہ پاکستان کے سرکاری مسلمانوں کا کیا جواب ہو گا؟؟؟
مجھے وہ جواب جاننے میں دلچسپی ہے کیونکہ احمدیوں کے مسئلے کا بھی اصل میں وہی جواب ہے۔ اب ذرا اس سیاسی اور جمہوری تناظر پہ غور فرمائیے۔
کیونکہ اکثر لوگ جمہوریت کی وکالت کرتے ہوئے احمدیوں کے بارے میں کی گئی آئینی ترمیم کے حق میں یہ استدلال گھڑ لاتے ہیں کہ چونکہ یہ فیصلہ ایک جمہوری حکومت نے ڈیموکریٹک پلیٹ فارم سے کیا ہے اس لئے اب اس کو تسلیم کرنا ہم سب پر ایک آئینی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہم احمدیوں کو غیر مسلم تسلیم کر کے ایک جمہوریت پسند شھری ہونے کا ثبوت دیں۔
جمہوری حلقوں کی طرف سے پیش کردہ یہ کمزور ترین استدلال ہے جس کو اتنی ہی آسانی سے رد کیا جا سکتا ہے۔
صرف پچھلی صدی ہی میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بمباری سے لے کر فلسطین پر غاصبانہ قبضہ، گوئٹے مالا، ویٹنام کمپوچیااور عراق پر فوج کشی اور بمباری کے علاوہ امریکہ اور نازی جرمنی کے نسلی تعصب پر مبنی قوانین اور نسل کشی کے کیمپس وغیرہ تمام مظالم اور انسانیت کے خلاف گھناونے جرائم تمام تر جمہوری حکومتوں ہی کے پروردہ اور تیارکردہ ہیں۔ اس لئے جمہوری حکومتوں کے بنائے گئے قوانین اور ان کے ظالمانہ کارنامے کسی طرح سے بھی تقدیس کی ضمانت نہیں ہیں۔
جبکہ دوسری طرف انسانی حقوق ہی ہیں جو مقدس ہونے کے لحاظ سے ہمہ گیر بھی ہیں اور آفاقی بھی۔
ہر زمانہ اور ہر خطہ ان کی تقدیس اور تحفظ کی گواہی بھی دیتا ہے اور تقاضا بھی کرتا ہے۔
وہ انسانیت کا ایسا فطری اور پیدائشی حق ہیں جو کسی جمہوری یا غیر جمہوری ادارے کی عطا نہیں بلکہ بنی نوع انسان کا ایک پیدائشی اور دائمی استحقاق ہے۔ اور ہر وہ قانون جو ایسی غیر فطری نا انصافی پر مبنی ہو اس کا انکار ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔
اس بین الاقوامی انسانی فریضے کی تفصیل روسو، جیفرسن، تھوریو، مارٹن لوتھر کنگ ، گاندھی اور نیلسن منڈیلا ہی نے نہیں کی بلکہ یہ ایک ایسا دائمی اور آفاقی اصول ہے جس کو ہمارے نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید بھی حاصل ہے۔
علاوہ ازیں دوسری آئینی ترمیم پاکستان کے آئین میں فراہم کئے گئے مندرجہ ذیل حقوق سے بھی متصادم ہے جن کی ضمانت دستور پاکستان ہر شھری کو دیتا ہے۔
آرٹیکل 17 فکری آزادی
آرٹیکل 20 مذہبی آزادی
آرٹیکل 25 امتیازی سلوک کے خلاف ضمانت۔
اور آرٹیکل 19 جو آزادی اظہار کا ضامن ہے۔
اسی طرح یہ ترمیم آرٹیکل 8 کی رو سے اس لئے بھی ساقط سمجھے جانے کے لائق ٹھہرتی ہے کہ آرٹیکل 8 کے مطابق ” ہر وہ قانون جو اس باب میں بیان کردہ حقوق کو سلب کرے ۔۔۔۔۔بے حیثیت ہو گا”
اندر ایں حالات جمہوریت کے نام پر دوسری آئینی ترمیم نہ صرف بے انصافی اور ہٹ دھرمی پر مبنی ہے اور بجائے خود غیر آئینی بھی ہے اس لئے اس کو رد کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس فرض کی ادائیگی کی تلقین تمام اہل علم و عقل اور پیغمبر تک کر رہے ہیں۔
اس وقت اہل پاکستان کے غیر متعصب شرفاء کو اس ضرورت کو پہچاننے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان غیر جانبدار ریاست کے مقام پر فائز ہو سکے۔
میرے محترم قارئین، دنیا کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت نے تو انسان کو استبداد کی چکی سے نکال کر آزادی عطا کی ہے اور آزادی اظہار و عقائد کی ضمانت دی ہے۔ اس غیر آئینی غیر سیاسی اور غیر انسانی ترمیم سے تو پاکستان دنیا میں واحد ملک بن گیا ہے جس نے جمہوریت کے ہتھیار کو استعمال کر کے انسانیت کو بادشاہت اور آمریت کے پنجے سے چھڑوا کر ملائیت کے خونخوار پنجوں میں جکڑ دیا ہے۔ اور یہ شکنجہ اس لئے زیادہ مایوس کن اور خطرناک ہے کہ یہ تو جبر و استبداد کے لئے دین اور مذہب سے سند یافتہ ہے۔ اور بانئ اسلام نے ایک حدیث میں علماء سوء کو بندر سے تشبیہ دے رکھی ہے۔ تو گویا آپ نے آئین سازی کی بندوق بندر کے ہاتھ میں لوڈ کر کے تھمائی ہوئئ ہے اور خوش گمان ہیں کہ یہ صرف احمدیوں یا شیعوں کو مارے گا۔
ارے بھائیو۔۔۔وہ کسی کو بھی مار دے گا۔ خدا کے لئے کوئی ترکیب کر کے اس کے ہاتھ سے یہ بندوق واپس لو ورنہ آپ کی نسلیں غیر محفوظ ہیں۔
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے۔۔۔۔
View Comments
-
-
Courgious words from a son of bold man.
May Allah reward him limitless.
شان تاثیر صاحب۔ اگر آپ نے انسانیت اور انسانوں کی بات کرنی ہے تو مذہب کو ریاستی سطح پر طلاق دینی ہوگی، نام نہاد جمہوریت اگر مذہب کو جہیزاور حق مہر کی شکل میں اپنے ساتھ لائے گی تو انجام یہی ہوگا جو آج برما، کشمیر ، شام، ترکی اور پاکستان میں اور بغداد،کربلا، اُندلس ،افریقہ اور حجاز و کربلا میں کل ہوا تھا۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا جب تک آپ مذہب طلاق نہیں دینگے۔ قتل کسی کا بھی ہو، ظُلم کسی پر بھی ہو چاہے وہ سفید ہے سیاہ ہے یا گندمی، یہودی ہو، عیسائی ہو، احمدی ہو، سکھ ہو ہندو یا مسلمان یہ سب انسان ہیں انسان کو انسان پر ظُلم ہونے کو روکنا ہی شرف انسانیت ہے۔ کسی ایک فرقے کسی ایک مذہب کی حمایت میں بات کرنے سے ہم اس مرض کو جڑ سے ختم نہیں کر سکیں گے ہمیں اس کو انسانیت کی سطح پر ختم کرنا ہوگا۔ اگر گراں نہ گذرے تو، کیا یہ پہلا پتھر نہ ہوتا اگر سلمان تاثیر مرحوم نے بھٹو کے ’’غیر مسلم‘‘ والے کارنامے کی مخالفت کرتے؟ شکریہ!