بچپن میں بہار کے موسم میں ہمارے گاوں کے ساتھ سیدھی سیم نالے کی پٹڑی پہ گھڑ سواری اور نیزہ بازی کی مشقیں شروع ہو جاتیں اور ہم دس گیارہ سالہ لڑکوں کو دیکھنے کے بعد کرنے کا جنون سوار ہو جاتا تھا۔ اب نیزہ بازی کے لئے شوق اور فن کے ساتھ گھوڑا، عمر و تجربہ نیزہ اور دیگر لوازمات بھی درکار تھے جن کا حل میرے ایک چچا زاد نے یہ نکالا کہ کمہاروں کا کھوتا پکڑ کے اس کے منہ میں رسی ڈال لگام بنائی اور سوٹی کے آگے کیل ٹھونک کے نیزہ بنالیا۔ موصوف نے اپنی چپل زمین میں گاڑ کے کلا بنایا اور گدھا سو میٹر سے سر پٹ بھگاتے ہوئے آئے اور نیزہ کلے پہ مارنے سے بیس گز پہلے ہی سر کے بل گرے اور کھوتا اوپر سے گذر گیا۔
اس بے ضرر واقعے کی باز آفرینی کا باعث پاکستان میں حقوق کی پامالی کا شوق اور پیمرا آمیز انداز جہاں بانی کے پینترے ہیں۔ ایک اصطلاح جو ابصار عالم سمیت ہر ایرا غیرا بول رہا ہے وہ یہ ہے کہ “طے شدہ مسئلے” پہ بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور یہ طے شدہ مسئلہ وہی ہے جس کو کسی زمانے میں بھٹو صاحب نے اپنی تقریروں میں ” نوے سالہ مسئلہ” بیان فرمایا اور بڑی داد پائی۔
اب ادھر کچھ سالوں سے وہی مسئلہ طے شدہ کہلانے لگا ہے۔ اور کوئی پلٹ کے پوچھتا نہیں کہ یہ مسئلہ حل یا طے کب ہوا تھا۔؟ یہ تو بزدلی، کم سوادی، کم نظری اور بے ایمانی کی وجہ سے آپ لوگوں نے اپنی حیا، گڈ گورننس، ریاستی غیر جانبداری اور انسانیت کو زندہ درگور کیا تھا اور چند سال میں ہی ضیالحق کے آرڈیننس کے ذریعے اس کا تعفن پھیل گیا اور اب تو یہ عالم ہے کہ ناک پہ رومال رکھ کے بھی گلی کوچوں سے گذرنا محال ہو گیا ہے۔
اسلام آباد کراچی لاہور جیسے بڑے شھروں کے مراعات یافتہ ہوں یا چھوٹے شھروں کے تعیش پذیر، سبھی نالاں ہیں لیکن جب تک اپنی جوتیوں میں انگارے نہیں بھرے تھے چپ تھے۔ اب جب کسی جگہ کا امن سلامت نہیں رہا اور ہر جگہ نفرت کا عفریت روزمرہ کی رواداری تک کو نگلنے لگا ہے تو اب حمزہ عباسی بول پڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان بے چاروں کے حقوق۔۔۔ان کی زندگیاں۔۔۔۔ان کے سکون۔۔۔۔ان کی تعزیتیں ان سے سلوک۔ چلیں دیر آئید۔ درست آئید۔ لیکن ان “بے چاروں” نے تو اسمبلی کا فیصلہ آتے ہی کہہ دیا تھا کے یہ فیصلہ پاکستان کا سیاسی، معاشرتی اور سماجی امن تباہ کر دے گا۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو۔
چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں!
لیکن وہ کوتاہ نظر ہی کیا ہوئے جو اس بات کو سمجھ جائیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر مبشر حسن، سابق وزیر خارجہ منظور قادر اور آج ان کے صاحبزادے ایڈوکیٹ بشارت قادر،آج کے چیئرمین سینٹ محترم رضا ربانی۔ اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں اور سابقہ وفاقی وزیر قانون اقبال حیدر مرحوم اس فیصلے کو دباو میں آکر کیا گیا سیاسی فیصلہ سمجھتے اور کہتے تھے۔
جو مسائل طے شدہ ہوتے ہیں وہ بیس دفعہ بھی کھول کے دیکھے جائیں تو نےنتیجہ وہی رہتا ہے۔ آپ نے تو اس طے شدہ مسئلے کی تفاصیل چالیس سال تک اہل تحقیق کو بھی نہیں دکھائیں۔۔۔تو پھدک کس تعین پہ رہے ہیں۔
آئیں ایک دلچسپ بات بتائیں آپ کو۔ راوی ہیں آئی آر ڈیپارٹمنٹ کے بشیر طاہر اور بتاتے ہیں کہ اسمبلی کے فیصلے کے بعد قائد اعظم یونیورسٹی کے کچھ غیر احمدی طلباء مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کے لئے ربوہ آئے۔اور یہ چیز ان دنوں نارمل تھی۔ ربوہ وزٹ کرنے سے ایمان سلب نہیں ہو جاتا تھا۔
تو ان طلباء نے پوچھا کہ کچھ بتائیں کہ کیا بات ہوئی اسمبلی میں۔
مرزا ناصر احمد صاحب نے جواب دیا کہ وہ تو ہم حلف دے چکے ہیں کہ یکطرفہ طور پر بھی معین وقت تک نہیں بتائیں گے اس لئے وہ تو میں نہیں بتا سکتا لیکن جو بات وہاں ساری بحث میں نہیں ہوئی وہ میں بتا دیتا ہوں۔
ایک تو وہاں مسئلہ ختم نبوت پہ بات نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسرا وہاں وفات/حیات مسیح پہ بات نہیں ہوئی۔
تو گذارش یہ ہے کہ یحی بختیار سے بھی بہت پہلے تک اگر دیکھا جائے تو آپ کے پڑھے لکھے قانون دان تو مذھب سے ویسے ہی دور رہتے ہیں۔ جتنا جتنا علم اور ڈگری بڑھتی جاتی ہے آپ کے مشاہیر پہ مولوی کا اسلام بھی کھلتا جاتا ہے اس لئے وہ ایمان سلامت رکھتے ہیں لیکن تعلق خاطر توڑ لیتے ہیں۔ اس لئے کے اگر اور غور کریں گے تو ملائیت آمیز جہالتیں اپنانی پڑیں گی یا پھر خود پڑھ لکھ کر اور تحقیق کر کے اوریا مقبول جان، ابصار عالم، یا قاضی حسین احمد بن جائیں گے۔ اس لئے وہ یحی بختیار ہوں یا آج کے تاج حیدر یا ایاز امیر، ان کو کٹھ ملائیت سے بچنے کے لئے دور ہونا پڑتا ہے۔
تو یحی بختیار نے اسمبلی میں “نوے سالہ” الزامات دہرائے تھے اور باقی فیصلہ وہی ہوا جو پہلے سے سعودیہ سپانسرڈ تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ان کو سعودی عرب آنے سے روکو اور خود کافر قرار دے نہیں سکتے تھے کیونکہ عربی ان کی زبان ہے اور قرآن میں جو “ان يك صادك….”کے ساتھ جو وعید جڑی ہوئی ہے اس کا بوجھ اٹھانے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔انسانی حقوق کی پامالی جس طرح امریکہ میں ہوتی آئی تھی اور جس طرح ظالمانہ قوانین میں ریاست شریک تھی اور جیسی تفصیلی مزاحمت مارٹن لوتھر کنگ نے لمبا عرصہ وہاں جاری رکھی جس کا ثمر اس وقت صدر باراک اوبامہ ہیں ، یہ سب گھڑ سواری کی ضروریات اور وسائل تھے۔ پاکستان میں چونکہ مدرسے سعودیہ فنڈڈ اور حکومتیں تیل سپانسرڈ رہتی ہیں اور اگر کوئی عوامی پن آتا بھی ہے تو وہ احمدیوں کے مسئلے پرآ کر دم توڑ دیتا ہے اس لئے یہاں بس کھوتے پہ ہی نیزہ بازی ممکن ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے اڈونچر کے لئے سازگار حالات اور حماقت کے مناسب حال عمر بھی چاہئے۔ پاکستان کے سماجی، معاشی اور سیاسی حالات سے یہ حماقتیں اس وقت لگا نہیں کھاتیں۔ نہ تو امتیازی قوانین والا امریکہ کا سن 60 ہے اور نہ ہی 1974 والا آدھا بھوکا آدھا ننگا بازو کٹا پاکستان کہ جس میں احمدیوں کو کافر قرار دینا واحد قومی ترجیح بن سکے۔
اس وقت آپ نے جو ضرب عضب شروع کیا ہوا ہے اس میں آپ مولویوں کی ماں نہیں بلکہ نانی کو مار رہے ہیں اور اپنی بقا کے لئے مار رہے ہیں۔ احمدیوں کی خاطر آپ گلی کا کتا بھی نہ ماریں۔ یہ تو جب شرعی عدالتیں مالا کنڈ سے نیچے اتریں اور اس ڈائن نے آ کر پشاور میں سکول کے بچے کھانے شروع کئے تو آپ کو مجبوری کے عالم میں غلط کار کو غلط کہنا اور مارنے والے کو مارنا پڑا۔
دوسری طرف اڑتالیس عرب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے والے چائینا کو تسلی کی ضمانت ملی ہے تو کام شروع ہوا ہے۔ علاوہ ازیں جغرافیائی اور معاشی استحکام کی دیگر ترجیحات بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں تو ان دنوں میں مولوی اوکاڑوی نما ایمان اور دھمکی سے مسلط دین قابل عمل نہیں۔ باینہمہ ابصار عالم ٹائپ فیصلے بھی نا قابل عمل ہیں۔ حکومت ہے تو حاکموں کی طرح حکومت کریں اور سچ جھوٹ میں امتیاز اور حق ناحق میں فرق کر کے جہاں کھڑا ہونا پڑے وہاں ہمت سے کھڑے ہوں اور فیصلے دیں، منمنائیں نہیں۔
پاکستان اور پاکستان کے ارباب اختیار کے لئے یہ ۔۔۔۔۔ کھوتے پہ بیٹھ کے نیزہ بازی کا وقت نہیں ہے۔