آج سے چھیاسی برس قبل چکوال کے صاحب ثروت ہندوؤں کو ایک ایسا خیال آیا جو آج کے دور میں اچھوتا یا بالکل فضول سمجھا جاتا ہے۔ 1930ء میں ان ہندوؤں نے چکوال شہر میں ایک ہائی سکول بنانے کی ٹھانی، چکوال کے ان چند امیر ہندوؤں کا تعلق چکوال شہر، چاولی اور وہالی گاؤں سے تھا۔ ہندوؤں کے اس گروپ کو سکول بنانے کا خیال کیسے آیا؟ کس شخص نے یہ آئیڈیا دیا اور کس شخص نے دوسروں کو اس عظیم کارخیر کے لیے راضی کیا، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سکول بنانے کے لیے چکوال کے ان عظیم باسیوں نے زمین چکوال کے چوہدریوں سے خریدی یا کسی نے زمین وقف کی اس کے متعلق بھی کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ شاید جہلم گزیٹر کے کسی بوسیدہ صفحے پر اس کے متعلق کچھ فقرے درج ہوں۔ تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ 1930ء میں اس سکول کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ ابتدائی طور پر سکول صرف چند کمروں پر ہی مشتمل تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے کمروں میں اضافہ ہوتا گیا ۔سکول کو موجودہ حالت میں آنے کے لیے پانچ سال لگے۔
اس سکول کو بنانے والوں میں وہالی زیر کے لیفٹیننٹ کپرارام بھی تھے کیرارام جو اس وقت برطانوی راج کے ماتحت ہندوستانی فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر تعینات تھے کے پاس ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں بھی تھیں۔ لیفٹیننٹ کپرارام نے اپنے مرحوم والد سردار ٹھاکر داس جوہر کی یاد میں اس سکول کی تعمیر میں حصہ لیا۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس سکول کی تعمیر میں کپرارام کا اہم کردار تھا۔ چکوال شہر کے ہندوؤں کے اس گروپ میں سردار انوکھ رائے بھی تھے جن کا تعلق چاولی گاؤں سے تھا۔ 1931ء میں جب سردار انوکھ رائے کے جواں سالہ بیٹے بی یگ دتا کا انتقال ہوا تو اپنے بیٹے کے نام کو جاوداں کرنے کے لیے سردار انوکھ رائے نے اس سکول میں ایک کمرہ بنوا دیا۔ لالہ رام چند اور ڈاکٹرستیا رام دونوں بھائی تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے اپنے مرحوم والد لالہ اشیر داس سیٹھی کی یاد میں ایک کمرہ بنوا کر سکول کی تعمیر میں حصہ ڈالا۔ لالہ کانشی رام نے اپنے تین بھائیوں الیشر داس، سری رام اور روشن لعل کے ساتھ مل کر اپنے مرحوم والدین منشی بوٹا مل اور شریمتی امیر دیوی کی یاد میں ایک کمرہ بنوایا اور اس طرح اس عظیم کام میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈالا۔ کشن چند سبھروال بھی چکوالیوں کے اس گروپ میں شامل تھے۔1935ء میں جب ہندوستان کی تاریخ کے تباہ کن زلزلے نے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کو ملیا میٹ کر دیا تو اس زلزلے میں ایک نوجوان چکوالیا اگرسین سبھروال بھی ہلاک ہو گیا۔ اگرسین سبھروال اس نئے تعمیر ہونے والے سکول کا فارغ التحصیل طالب علم تھا۔اگرسین کشن چند سبھروال کا بیٹاتھا۔ بیٹے کی اچانک موت جہاں کشن چند سبھروال اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد پر قیامت بن کر گری وہاں اس ناگہانی موت نے کشن چند سبھروال کو ایک تعمیری جذبہ بھی عطاء کیا۔ اپنے اور اپنے بیٹے کے نام کو تاریخ میں امر کرنے کے لیے کشن چند سبھروال نے سکول میں ایک کمرہ بنوایا جو سکول کے دفتر کے طور پر استعمال ہوا۔ چکوال کے ان ہندوؤں میں دو بھائی بیر چند اور گیان پرکاش بھی شامل تھے۔ دونوں بھائی لکڑی کے تاجر تھے۔ اس زمانے میں لکڑی کا کاروبار ایک اہم اور بڑا منافع بخش کاروبار سمجھا تھا۔ دونوں بھائیوں نے اپنے مرحوم دادا بخشی کیسر مل جگی کی یاد میں سکول میں ایک کمرہ بنوا کر خود کو امر کر لیا۔
چکوال کے ان عظیم باسیوں میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جنہوں نے سکول کی تعمیر جیسے عظیم کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان دو عورتوں میں ایک شریمتی بھاگ ونتی تھیں جنہوں نے اپنے بیٹوں چنی لال، نارائن دت ،چندر بھن اور ستیا دیو کے ساتھ مل کر اپنے مرحوم شوہر منشی بھگوان داس کے نام پر ایک کمرہ بنوا کر سکول کی تعمیر میں حصہ ڈالا۔ دوسری عورت وہالی زیر کی جوالا دیوی تھی جنہوں نے اپنے مرحوم شوہر لالہ سکھ دیال کے نام پر ایک کمرا تعمیر کروا کر اس عظیم فلاحی کام میں حصہ ڈالا۔
اس طرح چکوال کے17 شہریوں نے مل کر پانچ سالوں میں ایک عظیم الشان ہائی سکول قائم کر دیا جو تیرہ کمروں پر مشتمل تھا۔ یہ سکول آریہ ہائی سکول کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہندوستان کے خونی بٹوارے یعنی1947ء تک اس سکول کا شمار چکوال کے اہم تعلیمی اداروں میں ہوتا تھا کیونکہ اس وقت چکوال شہر میں آریہ ہائی سکول کے علاوہ دو اور ہائی سکول تھے۔ ایک گورنمنٹ ہائی سکول چکوال تھا جو برطانوی راج نے تعمیر کروایا جبکہ دوسرا سکول منشی سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول چکوال تھا جو 1910ء میں منشی سنت سنگھ مرحوم کی یاد میں ان کے پانچ شاگردوں نے تعمیر کروایا۔ ان پانچ شاگردوں میں منڈے گاؤں سے تعلق رکھنے والے سردار چیت سنگھ کوہلی اور ان کے پگڑی بدل یار سردار ہربنس سنگھ نے اس سکول کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔
آریہ ہائی سکول کے بنانے والے ہندوستان کے بٹوارے کے دوران ہونے والے مذہبی فسادات کی نذر ہو گئے یا سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوئے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ وہالی کے لیفٹیننٹ کپرارام، جوالا دیوی اور چاولی کے سردار انوکھ رائے سیٹھی کے گھروں کا کیا ہوا ،کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم آریہ ہائی سکول بنانے والے باقی تیرہ افراد کے گھر موتی بازار میں آج بھی موجود عالی شان گھروں میں سے ہی کوئی ہونگے۔
ہندوستان کے خونی بٹوارے نے جہاں دس لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔تیس لاکھ انسانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا وہاں ہندوؤں اور سکھوں کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں اور دوسری عمارتوں جن میں مندر اور گردوارے شامل تھے پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے۔1947ء میں آریہ ہائی سکول بند ہو گیا۔ اس کی عالی شان عمارت نجانے کتنے سال تک بے کار پڑی رہی۔دوسری طرف سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول1947ء سے1949ء تک بند رہا۔1949ء میں جب گورنمنٹ ہائی سکول چکوال کو گورنمنٹ کالج چکوال کا درجہ دیا گیا تو سکول کو سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اس طرح1949ء میں سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول جس نے37برس تک چکوال کے باسیوں کی خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے تھا کو علم کی روشنی دی اس سکول کی عمارت کو1949ء میں باقاعدہ طور پر مسلمان کیا گیا۔ یعنی سکول کے ماتھے سے سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول کا نام مٹا کر گورنمنٹ ہائی سکول چکوال رکھا گیا۔ دوسری طرف سکول کو بنانے والے سردار چیت سنگھ اور سردار ہربنس سنگھ جب ہجرت کر کے دہلی پہنچے تو انہوں نے سب سے پہلے دہلی میں زمین خریدی اور ایک سکول بنایا۔ دونوں دوستوں نے دہلی سکول کا نام سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول چکوال رکھا۔ مٹی سے محبت اتنی اندھی تھی کہ اپنا وطن چھن جانے کے بعد بھی سردار چیت سنگھ اور سردار ہربنس سنگھ نے دہلی میں بنائے گئے سکول کے نام میں لفظ’’چکوال‘‘کا اضافہ کیا۔ یہ سکول آج بھی ’’سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول چکوال نیودہلی‘‘کے نام پر بھارتی دارالحکومت کے لاجپت نگر میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ ادھر چکوال میں سردار چیت سنگھ اور سردار ہربنس سنگھ کا بنایا ہوا سکول 1949ء میں ہمارے ہاتھوں اپنی شناخت کھو بیٹھا۔ جب چکوال میں پنوال روڈ پر ایک اور ہائی سکول بنا تو اس سکول کا نام گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1چکوال کر دیا گیا۔ ایک سال قبل اس سکول کی ایک سو پانچ سال پرانی عالی شان اور تاریخی عمارت ہماری بے رحمی اور لاشعوری کی بلی چڑھ گئی۔
آریہ ہائی سکول کی عمارت کافی سال بیکار پڑی رہی۔ جب گورنمنٹ کالج چکوال میں چند سال قبل کمپیوٹر سائنس کی کلاسز کا آغاز ہوا تو کمروں کے فقدان کی وجہ سے اس عمارت کی قسمت بھی جاگ گئی اس عمارت میں کمپیوٹر سائنس کی کلاسز کا آغاز کر دیا گیا۔ چند سال قبل پنجاب حکومت ہر ضلع میں ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے عہدے کو تخلیق کیا تو آریہ ہائی سکول کی عمارت کے دو کمرے ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز کے حوالے کئے گئے۔ ایک کمرے میں ڈی ڈی کالجز کا اپنا دفتر جبکہ دوسرا کمرہ ان کے ماتحت عملے کا تھا۔ اس طرح اس عمارت میں ڈی ڈی کالجز کا دفتر کھلنے اور کمپیوٹر سائنس کی کلاسز کا آغاز کرنے سے زندگی لوٹ آئی۔ چند ماہ قبل ڈی ڈی کالجز پروفیسر ناصر محمود اعوان نے کالج انتظامیہ سے اختلافات کی وجہ سے اپنا دفتر کمپلیکس منتقل کر لیا۔ ناصر صاحب کے جانے سے اس عمارت میں ایک دفعہ پھر ویرانی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ آج اس عمارت کا احاطہ گاجر بوٹی سے اٹا ہوا ہے۔ گاجر بوٹی اس وقت سے پاکستان میں موجود تمام جڑی بوٹیوں میں سب سے زیادہ زہریلی جڑی بوٹی ہے۔ کلاس رومز گندگی سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ کمروں میں کرسیاں بکھری پڑی ہیں۔ عمارت خستہ حالی کا شکار ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں اپنے تاریخی ورثے سے کوئی سروکار نہیں ۔ یہ عمارت آج بھی محفوظ ہو سکتی ہے بشرطیکہ ہم میں کوئی شعوری بیدار ہو۔ ہماری مردہ ضمیری کی وجہ سے سنت سنگھ خالصہ ہائی سکول کی عمارت نے پہلے اپنا نام کھویا پھر خود ہی نیست و نابود ہو گئی اور آج آریہ ہائی سکول کی عمارت جو اپنا نام پہلے ہی کھو چکی ہے اب اپنا وجود کھونے کے لیے ہماری مردہ ضمیری اور ناقدری کے ایک تھپیڑے کی منتظر ہے۔
اس کے بنانے والوں میں کیونکہ وہالی کے جوہروں نے اہم کردار ادا کیا تھا اس لیے میں یہاں وہالی کے ان باسیوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں آڑہ بشارت روڈ پر واقع وادی جھنگڑ کا حسین گاؤں وہالی زیر ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ریاست وہالی کا صدر مقام ہوا کرتا تھا۔ ریاست وہالی چوآسیدن شاہ اور پنڈدادنخان کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ نمک کی کانیں اور علاقے کی زرخیز زمین وہالی کے سرداروں کی ملکیت تھی۔ وہالی کے سرداروں کو1909میں پنجاب کے سب سے بڑے جاگیردار قرار دیا گیا کہ ان کے پاس چودہ ہزار ایکڑ زمین تھی۔ مشہور بھارتی سکالرنیہا سنگھ گوہل کے مطابق وہالی کے سرداروں کا جد امجد سردار دیوان کرن مل تھا جو مغل شہنشاہ شاہجہان کا مشیر تھا۔ یہ وہالی کا دیوان کرن مل تھا جس نے تاج محل آگرہ کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی۔ وقت نے عجب چال چلی، شاہجہان کے بیٹے اورنگزیب جسے ہم ضیاء الحق کا روحانی باپ کہہ سکتے ہیں نے دیوان کرن مل کو اس لیے موت کے گھات اتار دیا کہ وہالی کے اس سردار نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھاوہی اورنگزیب جس نے اپنے والد شاہجہان کو پس انداں کئے رکھا۔ دیوان کرن مل کے پرپوتے بابا سیہاج سنگھ وہالی کے سرداروں میں پہلا سردار تھا جس نے سکھ مذہب اختیار کیا۔ اس سے پہلی وہالی کے سردار ہندو مذہب کے پیروکار تھے۔ بابا سیہاج سنگھ کے بعد دو نسلوں تک خاندان میں صرف ایک شخص نے سکھ مذہب اختیار کیا اور اپنے نام کے ساتھ سنگھ لکھا باقی تمام لوگ ہندو ہی رہے اور اپنے نام کے ساتھ ’’جوہر‘‘لکھتے رہے۔ بابا سیہاج سنگھ کے چار بیٹے جو دسنو وندھی رام، کرم چند، بھاگ سنگھ اور دھرم چند تھے ۔دھرم چند پیدائش کے چھ ماہ بعد فوت ہو گیا۔ بھاگ سنگھ ایک سپاہی بنا جس نے پونجھ کے مہاراجہ سردراموتی سنگھ کی فوج کو کمانڈ کیا۔ بھاگ سنگھ نے خاندان کی جائیداد دولت اور شہرت اور عزت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ بھاگ سنگھ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سردار ہرا سنگھ کو پونچھ کا وزیراعظم تعینات کیا گیا۔ سردار ہرا سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سردار کرتار سنگھ چودہ سال کی عمر میں وہالی خاندان کا سربراہ بنا۔ سردرا کرتار سنگھ کے بعد اس کے بیٹے سردار ہری سنگھ نے وہالی خاندان کی کمان سنبھالی۔سرداروں کو عزت ، شہرت، دولت اور طاقت کے عروج تک پہنچادیا۔یہ سردار ہری سنگھ تھا جس نے وہالی گاؤں میں عالیشان ماڑی تعمیر کروائی۔
وہالی گاؤں میں کبھی ایک سو اٹھائیس کنوئیں تھے گاؤں کا گنا اتنا مشہور تھا کہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کو برآمد کیا جاتا۔ وہالی کے سرداروں کی ایک ماڑی تھی جو تین منزلہ تھی لگ بھگ سو کمروں پر مشتمل تھی وہالی میں مسجد نہیں تھی، 1945ء میں مسجد بنائی گئی اس مسجد کے چھت کے لیے لکڑی وہالی کے ہندو تاجر رمتار سنگھ نے مفت دی۔1947ء میں رمتار سنگھ جان بچا کر بمشکل وہالی سے بھاگا۔ وہالی کے سردار 1947ء کی گرمیاں گزارنے شملہ گئے ہوئے تھے جہاں کا موسم مری اور ہمارے دوسرے شمالی علاقہ جات کی طرح گرمیوں میں انتہائی خوشگوارہوتا تھا۔ شملہ میں گرمیاں گزارنے کے لیے گئے ہوئے وہالی کے سردار اپنے گھر کو نہ لوٹ سکے۔ البتہ وہالی کے مسلمان باسیوں نے وہالی کے ہندوؤں کو تو کچھ نہ کہا اور نہ ہی فسادات میں حصہ لیا تاہم آس پاس کے دیہاتوں خاص طور پر منہالہ کے گجروں نے وہالی پر دھاوا بول دیا۔ وہالی گاؤں کی ریشم بی جو ایک سو آٹھ سال کی عمر میں چند ماہ پہلے فوت ہوئیں اور حاجی نذر محمد جو 95سال کے ہیں کے مطابق ایک طوفان یکدم اٹھا۔ ریشم بی اس وقت شادی شدہ تھیں۔ گاؤں کے ہندو وہالی کے سرداروں کی ماڑی میں جمع ہوئے۔ انکا خیال تھا کہ یہ ماڑی سردار ہری سنگھ کی ہے جو کشمیر کے راجہ کا وزیر ہے اس لیے یہاں وہ محفوظ ہونگے لیکن یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ مسلمانوں کے بھپرے ہوئے ہجوم نے ماڑی کو آگ لگا دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زیادہ ہندو جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے آگ میں بھسم ہوگئے۔ ریشم بی کی ایک سہیلی پرمشری بھی آگ میں جل کر راکھ ہو گئی۔ ریشم بی کے مطابق ہندو مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑتے رہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کو تیار ہیں ان کی عورتوں کے ساتھ مسلمان مرد شادی کریں اور ان کے بچوں کو مسجد میں دینی تعلیم دیں لیکن ان کی چیخ و پکار کسی نے نہ سنی کہ ہجوم کا مقصد دائرہ اسلام میں اضافہ نہیں بلکہ وہالی کے ہندوؤں کو قتل کر کے ان کی دولت کولوٹنا تھا۔ جوالہ دیوی جس نے نہ صرف آریہ ہائی سکول کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا بلکہ چکوال میں عورتوں کا1940میں پہلا ہسپتال بنوایا وہالی زیر کی ہی تھیں۔ لیفٹیننٹ کپرارام بھی وہالی زیر کے تھے۔ آج ہسپتال کے احاطے میں جوالہ دیوی کی بنائی ہوئی عمارت کا نام و نشان نہیں۔ البتہ ان کے نام کی تختی جو ایک کونے سے ٹوٹ چکی ہے ہسپتال کے سٹور میں پڑی ہوئی ہے۔ایک چکوال کے وہ ہندو شہری تھے جنہوں نے اپنی دولت کو انسانیت کی فلاح و بہبود پر لگا کر تعلیمی ادارے بنائے ایک چکوال کے ہم شہری ہیں جو نئے تعلیمی ادارے یا ہسپتال بنانا تو درکنار ہندوؤں اور سکھوں کے بنائے ہوئے اداروں کو سنبھال بھی نہیں سکے ۔چکوال میں آج بھی امیروں کی کمی نہیں۔ بیسیوں ایسے چکوالیے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے لیکن وہ شعور کی اس بلند سطح سے محروم ہیں جو چکوال کے ہندوؤں اور سکھوں کی تھی۔
اگست1947ء میں اٹھنے والا طوفان کیا کچھ لے گیااس طوفان کے ساتھ بے حسی، مردہ ضمیری اور ناقدری کی ہوا بھی چلی جو ابھی تک تھمی نہیں اور آہستہ آہستہ ہم سے ہمارا تاریخی ورثہ چھین کر لے جا رہی ہے۔
کلاسک ہندی فلم’ردالی‘‘میں گلزار کے لکھے ہوئے گانے ’سمے او دھیرے چلو‘جس کی دھن ڈاکٹر بھوپن بزار ریکا نے بنائی ہے کو لتا اور آشنا نے گا کر امر کر دیا ہے۔ گانے کا ایک شعر یہ ہے
یہ ہوا سب لے گئی
کارواں کے نشاں بھی اڑا لے گئی